میرے والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ایک دوست حکیم حافظ عبدالکریم دہلوی تھے۔ ایک بہت بڑی رہائش پرانی طرز کی بنی ہوئی عمارت لیکن نہایت صاف ستھری اوراجلی‘ ہر چیز سلیقے سے دھری ہوئی۔ آنا جانا رہتا تھا‘ ان کی باتیں بہت قیمتی ہوتی تھیں انہیں نواب آف بہاولپور کا شاہی معالج ہونے کا شرف بھی حاصل تھا۔ ایک بار کہنے لگے : گرمیوں کا موسم نواب آف بہاولپور شملہ (انڈیا کا وہ پرفضا مقام جیسے ہمارے ہاں مری) میںگزارتے تھے۔ اکثر سفر میں‘ میں ان کےساتھ ہوتا تھا‘ ایک بار ایسا ہوا کہ نواب آف بہاولپور کے کھانے میں ایک شکایت آئی اور وہ اچانک دھماکے کا پیش خیمہ بن گئی کہ نواب صاحب مسلسل ایک بات کا شکوہ کررہے ہیں کہ باورچی کھانا سلیقے سے نہیں پکا رہے‘ لذت نہیں‘ ذائقہ نہیں اور نواب صاحب خود ہی کہہ رہےتھے کہ باورچی یا کسی اور بندے کا قصور ہے‘کہیں کوئی کمی ایسی ہے جو ہماری سمجھ میں نہیں آرہی جس کی وجہ سے کھانے میں وہ سلیقہ اور ذائقہ نہیں اور لذت تو بالکل ہی نہیں۔ آخرکار حکیم صاحب کہنے لگے کہ مجھے اس کام کے لیے معمور کیا کہ آپ زیرک انسان ہیں‘ آپ سوچیں کہ کھانے کا ذائقہ آخر کہاں چلا گیا؟ بس میں اسی کام میں جت گیا ‘کہیں سے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی‘ باورچی بھی وہی‘ سلیقہ بھی وہی‘ صفائی بھی وہی‘ طریقہ بھی وہی اوروہی شاہی انداز‘ نواب آف بہاولپور بہت حساس مزاج کے تھے‘ میری ساری زندگی ان کے ساتھ گزری‘ ان کی شکایت بے معنی نہیں تھی اور نہ ہی وہ بے جا چیزوں میں نقص اور کیڑے نکالتے تھے۔ بس میں حیران تھا کہ آخر یہ کیا ہوا؟ اب میرے پاس آخری سہارا رب کا ہی تھا جس سے میں نے مانگنا شروع کیا کہ یااللہ میری عزت اور لاج رکھ لے کہ مجھے کچھ سجھائی نہیں دے رہا اور کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ میں کروں تو آخر کیا کروں؟ ایک رات مانگتے مانگتے اور ذکر کرتے کرتے میں سو گیا‘ صبح اٹھا تو اچانک میرے دل میں اللہ تعالیٰ نے ایک بات ڈالی کہ قصائی کا ذبیحہ مشکوک ہے‘ میں نے جاکر پتہ کیا کہ جو قصائی یہ بکرا ذبح کرتا ہے وہ کون ہے؟انہوں نے وہ قصائی بتایا‘ میں نے پوچھا کیا یہ قصائی نیا ہے یا پرانا؟ کہنے لگے: دراصل جب نواب شملہ سفر میں تشریف لے جانے لگے تو ان کا شاہی قصائی بیمار ہوگیا تو شملہ محل میں ملازمین نے یہیں سے ایک پرانے اورتجربہ کار قصائی کا انتظام کیا‘ بس! مجھے فوراً محسوس ہوا کہ میرا رونا اور رات کو اللہ کے سامنے بے بسی کا عرض کرنا کام آگیا۔ مجھے پتہ تھا کہ نواب کا جو پرانا قصائی ہے وہ نمازی‘ ذکر کرنے والا‘ تلاوت کرنے والا اور باوضو ذبح کرنے والا اور ذبح کرتے ہوئے جو کلمات بسم اللہ اللہ اکبر وہ اہتمام سے پڑھنے والا تھا اور یہ سب کچھ مجھے اس نئےقصائی میں نظر نہ آیا‘ سوائے تجربہ کے۔ اب سمجھ آئی کہ دراصل ذبیح مشکوک ہے اور جب میں نے تحقیق کی پتہ چلا کہ قصائی حلال حرام‘ جائز ناجائز‘ پاک ناپاک کا کوئی خیال اور اہتمام نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی توجہ کرتا ہے۔ بس وہ جو مشکوک ذبیح تھا اسی نے نواب کے کھانے کا ذائقہ ختم کردیا۔ اسی مشکوک ذائقہ نے سارا نظام متاثر کردیا اور نواب بے مزہ ہوگئے۔ مرحوم حکیم صاحب فرمانے لگے کہ میں نے فوراً اسی قصائی کو منگوانے کے لیے اطلاع کی کہ وہ جس حال میں ہے فوراً پہنچے اور اس دوران خود اس قصائی کے اوپر نگرانی کی۔ باوضو کلمات خود پڑھتا اس کو پڑھواتا اور اسی طرح اس سے ذبح کرواتا۔ تیسرے دن پرانا قصائی آگیا اور میں مطمئن ہوگیا بس نواب صاحب کو ہم نے نہ نئے قصائی کے بارے میں اطلاع کی نہ پرانے قصائی کے جانےکی اطلاع کی‘ ہم اس انتظار میں تھے کہ قصائی کے بدلنے میں نواب صاحب کا لہجہ او رویہ بدلتا ہے اگر تو بدلتا ہے تو میری تشخیص اور تجزیہ بالکل ٹھیک ہے کہ ذبیح مشکوک تھا‘ وہی ہوا جس کا مجھے شک بھی تھا اور یقین بھی۔ جس دن پرانے قصائی نے جانور ذبح کیا کیونکہ نواب صاحب ایک دن گوشت ایک دن سبزی اور ایک دن دیسی مرغ کھاتے تھے۔ بس اس دن نواب صاحب نے پہلا لقمہ لیتے ہی کہا کہ ہاں آج واقعی ذائقہ ہے لگتا ہے کہ آپ نے اس کا کوئی حل سوچا ہے اور فوراً اپنے غلام سے کہا کہ حکیم صاحب کو بلاؤ۔ میں اس گھڑی کا انتظار کررہا تھا کہ مجھے یقیناً بلاوا آئے گا۔ میں شاہی محل کے اندر نواب صاحب کے کھانے کی میز کے قریب پہنچا‘ شاہی سلام اور آداب عرض کیا۔ تو اس کے بعد نواب صاحب نے فرمایا کہ حکیم صاحب چور کا پاؤں کیسے ملا؟ یہ اس بات کی دلیل تھی کہ اس نتیجے تک کیسے پہنچے؟ تو حکیم صاحب کہنے لگے میں نے عرض کیا: حضور ذبیح مشکوک تھا۔ نواب صاحب نے گھورتی آنکھوں سے مجھے دیکھا اور کہنے لگے: بالکل سچ کہا‘ میرا اندر بھی یہی کہہ رہا کہ ذبیح مشکوک ہے‘ لیکن چونکہ میں اس یقین پر نہیں پہنچا تھا اس لیے میں نے یہ اظہار نہیں کیا اور مجھے انعام اور اکرام سےنوازا۔ قارئین! سفید لباس ایک مکھی کی بیٹھ اور پاخانے کو بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ واضح داغ اور نشان آپ خود محسوس کرسکتے ہیں۔ بالکل اسی طرح مومن جب ایمان کی حالت میں ہوتا ہے تو وہ حلال حرام جائز ناجائز اور مشکوک پر گہری نظر رکھتا ہے اگر نظر نہ بھی رکھے تو اس کے اندر کا حساس آلہ اس چیز کو سوفیصد واضح محسوس کرتا ہے اور سچی گھنٹیاں بجاتا ہے اور یہ گھنٹی اسے متوجہ کرتی ہے۔ اگر آپ بیرون ملک جائیں کسی ایسے ملک میں جائیں جہاں حرام کھانا اس ملک کے رواج کا حصہ ہے تو اپنے ساتھ آپ حلال کھانا چاہے وہ پیک ہی کیوں نہ ہو ضرور ساتھ لے جائیں اور وہ حلال کھانا ہی کھائیں‘ حلال حرام پر نظر رکھیں باہر کی بنی ہوئی غذاؤں پر ان کے لکھے فارمولہ پر ضرور توجہ کیجئے اور یہ توجہ ہی آپ کو بہت زیادہ ایمان کی لذت دے گی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں